باب تفسیر سورت یوسف

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ الْخُزَاعِيُّ الْمَرْوَزِيُّ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْکَرِيمَ ابْنَ الْکَرِيمِ ابْنِ الْکَرِيمِ ابْنِ الْکَرِيمِ يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ وَلَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ مَا لَبِثَ يُوسُفُ ثُمَّ جَائَنِي الرَّسُولُ أَجَبْتُ ثُمَّ قَرَأَ فَلَمَّا جَائَهُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ قَالَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ عَلَی لُوطٍ إِنْ کَانَ لَيَأْوِي إِلَی رُکْنٍ شَدِيدٍ إِذْ قَالَ لَوْ أَنَّ لِي بِکُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَی رُکْنٍ شَدِيدٍ فَمَا بَعَثَ اللَّهُ مِنْ بَعْدِهِ نَبِيًّا إِلَّا فِي ذِرْوَةٍ مِنْ قَوْمِهِ-
حسین بن حریث خزاعی، فضل بن موسی، محمد بن عمرو، ابوسلمة، حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کریم بن کریم بن کریم بن کریم، یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جتنی مدت یوسف علیہ السلام قید میں رہے اگر میں رہتا تو قاصد کے آنے پر بادشاہ کی دعوت قبول کر لیتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت پڑھی (فَلَمَّا جَا ءَهُ الرَّسُوْلُ قَالَ ارْجِعْ اِلٰي رَبِّكَ فَسْ َ لْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ الّٰتِيْ قَطَّعْنَ اَيْدِيَهُنَّ) 12۔یوسف : 50) (پھر جب اسکے پاس قاصد پہنچا کہا اپنے آقا کے ہاں واپس جا اور اس سے پوچھ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے ہاتھ کاٹے تھے۔ بے شک میرا رب ان کے فریب سے خوب واقف ہے۔) پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حضرت لوط علیہ السلام پر اللہ کی رحمت ہو وہ تمنا کرتے تھے کہ کسی مضبوط قلعے میں پناہ حاصل کریں اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ہر کسی قوم کی طرف انہی میں سے نبی بنا کر بھیجا۔
Sayyidina Abu Hurayrah (RA) reported that Allah’s Messenger (SAW) said, “Indeed, the noble, son of the noble son of the noble, son of the noble was Yusuf son of Ya’qub son of Ishaq son of Ibrahim.” He also said, “If I were in prison as long as Yusuf was in prison and a messenger (of the king) had come I would have responded positively.” He then recited: So, when the messenger came to him, he said, “Go back to your lord and ask him, ‘What about the women who cut their hands?’” (12 :50) He then said, “And may Allah’s mercy be on Lot. He wished to get shelter in a strong fort. And, Allah did not send a Prophet after him but from the crest of his (own) people.” [Ahmed 8399, Bukhari 3375, Muslim 151,lMuslim 4026) --------------------------------------------------------------------------------
حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ وَعَبْدُ الرَّحِيمِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو نَحْوَ حَدِيثِ الْفَضْلِ بْنِ مُوسَی إِلَّا أَنَّهُ قَالَ مَا بَعَثَ اللَّهُ بَعْدَهُ نَبِيًّا إِلَّا فِي ثَرْوَةٍ مِنْ قَوْمِهِ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الثَّرْوَةُ الْکَثْرَةُ وَالْمَنَعَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ رِوَايَةِ الْفَضْلِ بْنِ مُوسَی وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ-
ابوکریب، عبدہ، عبدالرحیم، افضل بن موسیحضرت ابوکریب یہ حدیث عبدہ اور عبدالرحیم سے اور وہ افضل بن موسیٰ سے اسی کا مانند نقل کرتے ہیں کہ اس کے الفاظ یہ ہیں مَا بَعَثَ اللَّهُ بَعْدَهُ نَبِيًّا إِلَّا فِي ثَرْوَةٍ مِنْ قَوْمِهِ لیکن معنی ایک ہی ہیں جب کہ محمد بن عمرو کہتے ہیں کہ معنی کثرت وقوت کے ہیں۔ یہ حدیث فضل بن موسیٰ کی روایت سے زیادہ صحیح اور حسن ہے۔
-