باب تفسیر سورت مائدہ

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مِسْعَرٍ وَغَيْرِهِ عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ قَالَ قَالَ رَجُلٌ مِنْ الْيَهُودِ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَوْ عَلَيْنَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ الْيَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِينَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَکُمْ الْإِسْلَامَ دِينًا لَاتَّخَذْنَا ذَلِکَ الْيَوْمَ عِيدًا فَقَالَ لَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَنِّي أَعْلَمُ أَيَّ يَوْمٍ أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ أُنْزِلَتْ يَوْمَ عَرَفَةَ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
ابن ابی عمر، سفیان، مسعر وغیرہ، قیس بن مسلم، حضرت طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اگر آیت ( اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا) 5۔ المائدہ : 3) (آج میں تمہارے لئے تمہارا دین پورا کر چکا اور میں نے تم پر اپنا احسان پورا کر دیا اور میں نے تمہارے واسطے اسلام ہی کو دین پسند کیا ہے) ۔ ہم پر نازل ہوتی تو ہمارے لیے وہ عید کا دن ہوتا جس دن یہ نازل ہوتی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ آیت کب نازل ہوئی۔ یہ آیت عرفات کے دن نازل ہوئی اس دن جمعہ تھا۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Tariq ibn Shihab reported that a Jew spoke to Sayyidina Umar ibn Khattab (RA) this verse:"This day have I perfected your religoin for you and completed My blessing on you, and approved Al-Islam as a din (code of life) for you." (5: 3) The Jew said, ‘O Ameer ul-Muminin, if it was revealed to us, we would have adopted it a day of Eid (festival).” So, Umar (RA) said, “Indeed, I know the day on which it was It was revealed on the day of Arafah, a Friday.” (It is to say that it was revealed on eed to say of adopting it as one). [Bukhari 45, Muslim 3017, Nisai 5027]
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ قَالَ قَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ الْيَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِينَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَکُمْ الْإِسْلَامَ دِينًا وَعِنْدَهُ يَهُودِيٌّ فَقَالَ لَوْ أُنْزِلَتْ هَذِهِ عَلَيْنَا لَاتَّخَذْنَا يَوْمَهَا عِيدًا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَإِنَّهَا نَزَلَتْ فِي يَوْمِ عِيدٍ فِي يَوْمِ جُمْعَةٍ وَيَوْمِ عَرَفَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ-
عبد بن حمید، یزید بن ہارون، حماد بن سلمة، حضرت عمار بن ابوعمار سے روایت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ آیت ( اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا) 5۔ المائدہ : 3) پڑھی تو ان کے پاس ایک یہودی تھا۔ وہ کہنے لگا کہ اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید کے طور پر مناتے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جس دن یہ آیت نازل ہوئی تھی اس دن یہاں دو عیدیں تھیں۔ عرفات کے دن کی اور جمعہ کے دن کی۔ یہ حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے غریب ہے۔
Ammar ibn Abu Ammar reported that when Sayyidina lbn Abbas (RA) recited the verse."This day have I perfected your religion for you, completed My favour upon you, and have chosen for you Islam as your religion."(5:3) A Jew was sitting in his assembly. He remarked, ‘if it had been revealed to us then have taken that day as eed day.” So, Ibn Abbas said, “Indeed, it was revealed on the d eeds on a Friday that was also the day of Arafah (on which Hajj is performed).
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمِينُ الرَّحْمَنِ مَلْأَی سَحَّائُ لَا يُغِيضُهَا اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ قَالَ أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ فَإِنَّهُ لَمْ يَغِضْ مَا فِي يَمِينِهِ وَعَرْشُهُ عَلَی الْمَائِ وَبِيَدِهِ الْأُخْرَی الْمِيزَانُ يَرْفَعُ وَيَخْفِضُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَتَفْسِيرُ هَذِهِ الْآيَةِ وَقَالَتْ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنْفِقُ کَيْفَ يَشَائُ وَهَذَا حَدِيثٌ قَدْ رَوَتْهُ الْأَئِمَّةُ نُؤْمِنُ بِهِ کَمَا جَائَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُفَسَّرَ أَوْ يُتَوَهَّمَ هَکَذَا قَالَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْأَئِمَّةِ مِنْهِمْ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَمَالِکُ بْنُ أَنَسٍ وَابْنُ عُيَيْنَةَ وَابْنُ الْمُبَارَکِ أَنَّهُ تُرْوَی هَذِهِ الْأَشْيَائُ وَيُؤْمَنُ بِهَا وَلَا يُقَالُ کَيْفَ-
احمد بن منیع، یزید بن ہارون، محمد بن اسحاق، ابوزناد، اعرج، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا دایاں ہاتھ یعنی اسکا خزانہ بھرا ہوا ہے جو ہمیشہ جاری رہتا ہے اور دن ورات میں سے کسی وقت بھی اس میں کوئی کمی نہیں آتی۔ کیا تم جانتے ہو کہ جب سے اس نے آسمانوں کو پیدا کیا ہے اس نے کیا خرچ کیا ہے۔ اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اس کا عرش (آسمان کو پیدا کرنے کے وقت) سے لے کر اب تک پانی پر ہے اور اس کے دوسرے ہاتھ میں ایک ترازو ہے جسے وہ جھکاتا اور بلند کرتا ہے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور یہ اس آیت کی تفسیر ہے۔ (وَقَالَتِ الْيَھُوْدُ يَدُاللّٰهِ مَغْلُوْلَةٌ غُلَّتْ اَيْدِيْهِمْ وَلُعِنُوْا بِمَا قَالُوْا بَلْ يَدٰهُ مَبْسُوْطَتٰنِ يُنْفِقُ كَيْفَ يَشَا ءُ ) 5۔ المائدہ : 64) (اور یہودی کہتے ہیں کہ اللہ کا ہاتھ بند ہوگیا ہے۔ انہیں کے ہاتھ بند ہوں اور انہیں اس کہنے پر لعنت ہے بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں جس طرح چاہے خرچ کرتا ہے۔ آئمہ کرام فرماتے ہیں کہ یہ حدیث جیسے آئی اسی طرح اس پر ایمان لایا جائے۔ بغیر اس کے کہ اسکی کوئی تفسیر کی جائے یا وہم کیا جائے۔ متعدد آئمہ نے یو نہی فرمایا ان میں سفیان ثوری، مالک بن انس، ابن عیینہ، ابن مبارک رحمہم اللہ ان سب کی رائے یہ ہے کہ اس قسم کی احادیث روایت کی جائیں اور ان پر ایمان لایا جائے انکی کیفیت سے بحث نہ کی جائے۔
Sayyidina Abu Huraira (RA) reported that Allah’s Messenger (SAW) I said, “The right Hand of the Compossionate is full (of treasures) showering bounties day and night. There never is any loss at any time. Do you realise how much He has spent since He has created the heavns. It has not diminished what is in His Right Hand in the least. His Throne is on water. In His other Hand are the scales that He lowers and raises.” [Ahmed 10505,Bukhari 4684,Muslim 993]
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ عُبَيْدٍ عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحْرَسُ حَتَّی نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ وَاللَّهُ يَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ فَأَخْرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ مِنْ الْقُبَّةِ فَقَالَ لَهُمْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ انْصَرِفُوا فَقَدْ عَصَمَنِي اللَّهُ حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَرَوَی بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحْرَسُ وَلَمْ يَذْکُرُوا فِيهِ عَنْ عَائِشَةَ-
عبد بن حمید، مسلم بن ابراہیم، حارث بن عبید، سعید جریری، عبداللہ بن شقیق، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلے حفاظت کی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی ( وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ) 5۔ المائدہ : 64) (اور اللہ تجھے لوگوں سے بچائے گا۔) اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خیمے سے سر مبارک باہر نکالا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لوگو چلے جاؤ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت کا وعدہ کر لیا ہے۔ یہ حدیث غریب ہے۔ بعض اسے جریری سے اور وہ عبداللہ بن شقیق سے نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کی جاتی تھی اس میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ذکر نہیں۔
Sayyidah Aisha (RA) reported that the Prophet (SAW) used to be guarded and protected till this verse was revealed"And Allah will protect you from (evil-minded) men." (5: 67) So, Allah’s Messenger (SAW) took his head out of his tent and said to them, ‘O you people! Go! Indeed, Allah will protect me.
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا شَرِيکٌ عَنْ عَلِيِّ بْنِ بَذِيمَةَ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا وَقَعَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ فِي الْمَعَاصِي نَهَتْهُمْ عُلَمَاؤُهُمْ فَلَمْ يَنْتَهُوا فَجَالَسُوهُمْ فِي مَجَالِسِهِمْ وَوَاکَلُوهُمْ وَشَارَبُوهُمْ فَضَرَبَ اللَّهُ قُلُوبَ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ وَلَعَنَهُمْ عَلَی لِسَانِ دَاوُدَ وَعِيسَی ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِکَ بِمَا عَصَوْا وَکَانُوا يَعْتَدُونَ قَالَ فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَکَانَ مُتَّکِئًا فَقَالَ لَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ حَتَّی تَأْطُرُوهُمْ عَلَی الْحَقِّ أَطْرًا قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ يَزِيدُ وَکَانَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ لَا يَقُولُ فِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ أَبِي الْوَضَّاحِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ بَذِيمَةَ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ وَبَعْضُهُمْ يَقُولُ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلٌ-
عبداللہ بن عبدالرحمن، یزید بن ہارون، شریک، علی بن بذیمة، ابوعبیدة، حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلاء ہوگئے تو ان کے علماء نے انہیں روکنے کی کو شش کی لیکن جب وہ باز نہیں آئے تو علماء ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے لگے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے دل آپس میں ایک دوسرے سے ملا دئیے اور پھر حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان سے ان پر لعنت کی کیونکہ وہ لوگ نافرمانی کرتے ہوئے حد سے تجاوز کر جا تے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے پہلے تکیہ لگائے ہوئے تھے۔ اور فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم لوگ اس وقت تک نجات نہیں پاؤ گے جب تک تم ظالم کو ظلم سے نہ روکو گے۔ عبداللہ بن عبد الرحمن، یزید سے اور وہ سفیان ثوری سے یہ حدیث نقل کرتے ہوئے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر نہیں کرتے یہ حدیث حسن غریب ہے۔ محمد بن مسلم بن ابی وضاح سے بھی علی بن بذیمہ کے حوالے سے منقول ہے وہ ابوعبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً اسی کی مانند نقل کرتے ہیں۔ جبکہ بعض ابوعبیدہ کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں۔
Sayyidina Abdullah Ibn Mas’ud (RA) reported that Allah’s Messenger said, “When the Banu Israil plunged into sin, their ulama disuaded them. But they did not cease. The ulama attended their company, sat with them, ate and drank with them. So Allah reconciled their hearts with each other and He cursed them with the tongue of Dawud (AS) and and of Eesa ibn Maryam (AS) because they disbelieved and transgressed the limits.” The narrator went on to say that Allah’s Messenger (SAW) who was sitting in a reclined manner, sat up straight and said, No, by Him Who has my soul in His hand, not until you stop the oppressor from committing oppression on others.” [Abu Dawud 4336, Ibn e Majah 4006, Ahmed 37131
حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ بَذِيمَةَ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَمَّا وَقَعَ فِيهِمْ النَّقْصُ کَانَ الرَّجُلُ فِيهِمْ يَرَی أَخَاهُ عَلَی الذَّنْبِ فَيَنْهَاهُ عَنْهُ فَإِذَا کَانَ الْغَدُ لَمْ يَمْنَعْهُ مَا رَأَی مِنْهُ أَنْ يَکُونَ أَکِيلَهُ وَشَرِيبَهُ وَخَلِيطَهُ فَضَرَبَ اللَّهُ قُلُوبَ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ وَنَزَلَ فِيهِمْ الْقُرْآنُ فَقَالَ لُعِنَ الَّذِينَ کَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَی لِسَانِ دَاوُدَ وَعِيسَی ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِکَ بِمَا عَصَوْا وَکَانُوا يَعْتَدُونَ فَقَرَأَ حَتَّی بَلَغَ وَلَوْ کَانُوا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالنَّبِيِّ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَائَ وَلَکِنَّ کَثِيرًا مِنْهُمْ فَاسِقُونَ قَالَ وَکَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّکِئًا فَجَلَسَ فَقَالَ لَا حَتَّی تَأْخُذُوا عَلَی يَدِ الظَّالِمِ فَتَأْطُرُوهُ عَلَی الْحَقِّ أَطْرًا حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ وَأَمْلَاهُ عَلَيَّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ أَبِي الْوَضَّاحِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ بَذِيمَةَ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ-
بندار، عبدالرحمن بن مہدی، سفیان، علی بن بذیمة، حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب بن اسرائیل کے ایمان میں کمی آگئی تو ان سے اگر کوئی اپنے بھائی کو گناہ کرتے ہوئے دیکھتا تو اسے روکتا پھر دوسرے دن اگر وہ باز نہ آتا تو اسے اس خیال سے نہ روکتا کہ اسکے ساتھ کھانا پینا اور اٹھنا بیٹھنا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان سب کے دل ایک دوسرے سے جوڑ دیئے ان کے متعلق قرآن نازل ہوا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لُعِنَ الَّذِينَ کَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَی لِسَانِ دَاوُدَ وَعِيسَی ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِکَ بِمَا عَصَوْا وَکَانُوا يَعْتَدُونَ۔ (بنی سرائیل میں سے جو کافر ہوئے ان پر داؤد علیہ السلام اور عیسیٰ بن مریم کی زبان پر لعنت کی گئی یہ اس لئے کہ وہ نافرمان تھے۔ اور حد سے گزر گئے تھے۔ المائدہ۔ آیت) پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیات (وَلَوْ كَانُوْا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالنَّبِيِّ وَمَا اُنْزِلَ اِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوْهُمْ اَوْلِيَا ءَ وَلٰكِنَّ كَثِيْرًا مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ) 5۔ المائدہ : 81) سے آخر تک پڑھی (اور اگر وہ اللہ اور نبی پر اور اس چیز پر جو اسکی طرح نازل کی گئی ہے ایمان لاتے تو کافر کو دوست نہ بناتے لیکن ان میں اکثر لوگ نافرمان ہیں۔ المائدہ۔ آیت) راوی کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے اور اٹھ کر بیٹھ گئے پھر فرمایا تم بھی عذاب الہی سے اس وقت تک نجات نہیں پا سکتے جب تک ظالم کا ہاتھ پکڑ کر اسے حق کی طرف راہ راست پر نہ لے آؤ۔ محمد بن بشار بھی ابوداؤد سے وہ محمد بن مسلم بن ابی وضاح سے وہ علی بن بذیمہ سے وہ عبیدہ سے وہ عبداللہ سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسی کی مانند حدیث نقل کرتے ہیں۔
Sayyidina Abu Ubaydah (RA) reported that Allah's Messenger (SAW) said, “When the Banu Isra’il deteriorated, a person who found his brother commit a sin would reprimand him; but if he found him again the next day, he did not stop him. The mAnas (RA) commission of sin did not even prevent him from eating and drinking and associating with him. So Allah made their hearts compatible with each other and he revealed about them in the Quran: "Cursed were those who disblieved from among the children of Israil by the tongue of Dawud, and of Eesa, son of Maryam. That was because they disobeyed and used to transgress the limits." He recited it up to: "And had they believed in Allah and the Prophet (SAW) and that which is revealed to him, they would not have taken the disbelievers as friends; but many of them are transgresors."(5: 78-81) Allah's Messenger (SAW) sat up straight though he had been reclining hitherto. He said, “No! Not until you hold the hand of the oppressar, and incline him firrnI to the Truth.’ [Ibn e Majah 4006]
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ أَبُو حَفْصٍ الْفَلَّاسُ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعْدٍ حَدَّثَنَا عِکْرِمَةُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلًا أَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي إِذَا أَصَبْتُ اللَّحْمَ انْتَشَرْتُ لِلنِّسَائِ وَأَخَذَتْنِي شَهْوَتِي فَحَرَّمْتُ عَلَيَّ اللَّحْمَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ وَکُلُوا مِمَّا رَزَقَکُمْ اللَّهُ حَلَالًا طَيِّبًا قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ سَعْدٍ مُرْسَلًا لَيْسَ فِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَرَوَاهُ خَالِدٌ الْحَذَّائُ عَنْ عِکْرِمَةَ مُرْسَلًا-
عمرو بن علی ابوحفص، ابوعاصم، عثمان بن سعد، عکرمة، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جب گوشت کھاتا ہوں تو عورتوں کے لئے پریشان پھرنے لگتا ہوں۔ اور میری شہوت غالب ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی (يٰ اَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَيِّبٰتِ مَا اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ 87 وَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَيِّبًا) 5۔ المائدہ : 87) (اے ایمان والو ان ستھری چیزوں کو حرام نہ کرو جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں اور حد سے نہ بڑھو۔ بے شک اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا اور اللہ کے رزق میں سے جو چیز حلال ستھری ہو کھاؤ اور اللہ سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔ المائدہ۔ آیت) یہ حدیث حسن غریب ہے۔ بعض راوی اسے عثمان بن سعد کی سند کے علاوہ اور سند سے بھی روایت کرتے ہیں۔ لیکن یہ مرسل ہے اور اس میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا ذکر نہیں۔ خالد حذاء بھی عکرمہ سے یہی حدیث مرسلاً نقل کرتے ہیں۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِيلَ أَبِي مَيْسَرَةَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّهُ قَالَ اللَّهُمَّ بَيِّنْ لَنَا فِي الْخَمْرِ بَيَانَ شِفَائٍ فَنَزَلَتْ الَّتِي فِي الْبَقَرَةِ يَسْأَلُونَکَ عَنْ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ الْآيَةَ فَدُعِيَ عُمَرُ فَقُرِئَتْ عَلَيْهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ بَيِّنْ لَنَا فِي الْخَمْرِ بَيَانَ شِفَائٍ فَنَزَلَتْ الَّتِي فِي النِّسَائِ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُکَارَی فَدُعِيَ عُمَرُ فَقُرِئَتْ عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ بَيِّنَ لَنَا فِي الْخَمْرِ بَيَانَ شِفَائٍ فَنَزَلَتْ الَّتِي فِي الْمَائِدَةِ إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَکُمْ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَائَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ إِلَی قَوْلِهِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ فَدُعِيَ عُمَرُ فَقُرِئَتْ عَلَيْهِ فَقَالَ انْتَهَيْنَا انْتَهَيْنَا قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رُوِيَ عَنْ إِسْرَائِيلَ هَذَا الْحَدِيثُ مُرْسَلٌ-
عبداللہ بن عبدالرحمن، محمد بن یوسف، اسرائیل، ابواسحاق ، عمرو بن شرحبیل، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نئے دعا کی کہ یا اللہ ہمارے لئے شراب کا صاف صاف حکم بیان فرما چنانچہ سورت بقرہ کی آیت نازل ہوئی (يَسْ َ لُوْنَكَ عَنِ الْخَ مْرِ وَالْمَيْسِرِ)2۔ البقرۃ : 219) (آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہہ کو، ان میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کیلئے کچھ فائدے بھی ہیں اوع ان کا گناہ ان کے نفع سے بہت بڑا ہے البقرہ۔ آیت) پھر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا گیا اور یہ آیت سنائی گئی۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اے اللہ ہمارے لئے شراب کا صاف صاف حکم بیان فرما چنانچہ سورت نساء کی یہ آیت نازل ہوئی ( يٰ اَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى) 4۔ النساء : 43) (اے ایمان والو جس وقت کہ تم نشہ میں ہو نماز کے نزدیک نہ جاؤ یہاں تک کہ تم سمجھ سکو کہ کیا کہہ رہے ہو۔ النسائ۔ آیت) پھر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا گیا اور یہ آیت سنائی گئی لیکن انہوں نے پھر کہا اے اللہ ہمارے لئے شراب کا صاف صاف حکم بیان فرما اور پھر مائدہ کی یہ آیت نازل ہوئی (اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَا ءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ) 5۔ المائدہ : 91) (شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تم میں دشمنی اور بغض دالے اور تمہیں اللہ کی یاد سے اور نماز سے روکے۔ سو اب بھی باز آ جاؤ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا گیا اور یہ آیت پڑھ کر سنائی گئی تو انہوں نے فرمایا ہم باز آگئے، ہم باز آگئے۔ یہ حدیث اسرائیل سے بھی منقول ہے۔
It is reported from Sayyidina Umar (RA) ibn Khattab that he prayed, “O Allah, make clear to us the case of wine, an unambiguous statement. So, the verse that is in al-Baqarah as revealed: - "They ask thee concerning wine and gambling. Say: "In them is great sin, and some profit, for men; but the sin is greater than the profit." (2 :218) Umar (RA) was summoned and the verse was read out to him. But he prayed again, “O Allah, make clear to us the case of wine, in clear words.” So, the verse of an-Nisa was revealed: "O you who believe! Draw not near salah while you are intoxicated." (4:43) Umar (RA) was summoned and this verse was read out to him. But, he again prayed, “O Allah, make the case of wine clear to us absolutely clear.” So, the verse in al-Maidah was revealed: "Satan only desires to percipitate enimity and hatred between you by means of wine and gambling, and would bar you from the remembrance of Allah, and from the salah, Will you then desist! " (5: 91)Umar (RA) was summoned and it was read out to him. He said, “We desist. We desist !" [Ibn e Majah 2884]
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَائِ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي مَيْسَرَةَ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِيلَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ اللَّهُمَّ بَيِّنْ لَنَا فِي الْخَمْرِ بَيَانَ شِفَائٍ فَذَکَرَ نَحْوَهُ وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ-
محمد بن علائ، وکیع، اسرائیل، ابواسحاق، ابومیسرہ، عمر بن خطاب محمد بن علاء بھی وکیع سے وہ اسرائیل سیابواسحاق سے اور وہ ابومسیرہ سے نقل کرتے ہیں کی عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اے اللہ ہمارے لئے شراب کا حکم صاف صاف بیان فرما اور پھر اس کی مانند حدیث ذکر کی۔ اور روایت محمد بن یوسف کی روایت سے زیادہ صحیح ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَی عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَائِ قَالَ مَاتَ رِجَالٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ تُحَرَّمَ الْخَمْرُ فَلَمَّا حُرِّمَتْ الْخَمْرُ قَالَ رِجَالٌ کَيْفَ بِأَصْحَابِنَا وَقَدْ مَاتُوا يَشْرَبُونَ الْخَمْرَ فَنَزَلَتْ لَيْسَ عَلَی الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوْا وَآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَائِ أَيْضًا-
عبد بن حمید، عبیداللہ بن موسی، اسرائیل، ابواسحاق ، حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ شراب کی حرمت کا حکم آنے سے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہو چکا تھا۔ جب شراب حرام کی گئی تو بعض لوگوں نے کہا کہ ہمارے سا تھیوں کا کیا ہوگا وہ لوگ تو شراب پیتے ہوئے مرے تھے۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی (لَيْسَ عَلَي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِيْمَا طَعِمُوْ ا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ) 5۔ المائدہ : 93) (جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کئے ان پر اس میں کوئی گناہ نہیں جو پہلے کھا چکے جبکہ آئندہ کو پرہیز گار ہوئے اور ایمان لوئے اور عمل نیک کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ ) یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس حدیث کو شعبہ بھی ابواسحاق سے وہ براء سے اسی طرح روایت کرتے ہیں۔
Sayyidina Bara (RA) reported that some of the sahabah (RA) of the Prophet (SAW) died before prohibition of wine. So, when wine was prohibitted, a man wondered, “How will it be with our friends who died while they used to drink wine?” So, this verse was revealed: "On those who believe and do righteous deeds there is no blame for what they may have eaten (in the past) provided they abstain (from the forbidden), and believe (firmly), and do righteous deeds." (5: 93)
حَدَّثَنَا بِذَلِکَ بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ قَالَ قَالَ الْبَرَائُ مَاتَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمْ يَشْرَبُونَ الْخَمْرَ فَلَمَّا نَزَلَ تَحْرِيمُهَا قَالَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَکَيْفَ بِأَصْحَابِنَا الَّذِينَ مَاتُوا وَهُمْ يَشْرَبُونَهَا فَنَزَلَتْ لَيْسَ عَلَی الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا الْآيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
بندار، محمد بن جعفر، شعبة، ابواسحاق ، ابواسحاق سے روایت ہے کہ براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں سے کئی آدمی اس حالت میں فوت ہوئے کہ وہ شراب پیا کرتے تھے۔ پس جب شراب کی حرمت کا حکم نازل ہوا تو لوگوں نے کہا کہ ہمارے دوستوں کا کیا حال ہوگا راوی کہتے ہیں پھر یہ آیت نازل ہوئی (لَيْسَ عَلَي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِيْمَا طَعِمُوْ ا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ) 5۔ المائدہ : 93) یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Muhammad ibn Bashshar reported this hadith from Muhammad ibn Ja’far, from Shubah, from Abu Ishaq that Bara ibn Aazib narrated, Many of the sahabah (RA) died while they were accustomed to consume wine. So people thought what would become of them.’ So, this verse "On those who believe and do righteous deeds there is no blame for what they may have eaten (in the past) provided they abstain (from the forbidden), and believe (firmly), and do righteous deeds." (5 : 93) was revealed.
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي رِزْمَةَ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ سِمَاکٍ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ الَّذِينَ مَاتُوا وَهُمْ يَشْرَبُونَ الْخَمْرَ لَمَّا نَزَلَ تَحْرِيمُ الْخَمْرِ فَنَزَلَتْ لَيْسَ عَلَی الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوْا وَآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
عبد بن حمید، عبدالعزیز بن ابی رزمة، اسرائیل، سماک، عکرمة، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب شراب حرام ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بتایئے وہ لوگ جو مر گئے وہ شراب پیا کرتے تھے ان کا کیا حکم ہے۔ پس یہ آیت نازل ہوئی۔ (لَيْسَ عَلَي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِيْمَا طَعِمُوْ ا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ) 5۔ المائدہ : 93) یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Ibn Abbas (RA) reported that when wine was prohibitted, the sahabah said, “O Messenger of Allah (SAW), how will it be with those who have died though they were used to drink wine.” So this verse "On those who believe and do righteous deeds there is no blame for what they may have eaten (in the past) provided they abstain (from the forbidden), and believe (firmly), and do righteous deeds."(5 : 93) was revealed.
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَکِيعٍ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُسْهِرٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ لَيْسَ عَلَی الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوْا وَآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْتَ مِنْهُمْ قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
سفیان بن وکیع، خالد بن مخلد، علی بن مسہر، اعمش، ابراہیم، حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت (لَيْسَ عَلَي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِيْمَا طَعِمُوْ ا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ) 5۔ المائدہ : 93) نازل ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا تم بھی انہی میں سے ہو۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Abdullah (RA) narrated: When this verse; "On those who believe and do righteous deeds there is no blame for what they may have eaten (in the past) provided they abstain (from the forbidden), and believe (firmly), and do righteous deeds."(5 : 93) was revealed, Allah’s Messenger (SAW) said to me, “You are among them.
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا مُنْصُورُ بْنُ وَرْدَانَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَی عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ وَلِلَّهِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ فِي کُلِّ عَامٍ فَسَکَتَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ فِي کُلِّ عَامٍ قَالَ لَا وَلَوْ قُلْتُ نَعَمْ لَوَجَبَتْ فَأَنْزَلَ اللَّهُ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَائَ إِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ عَلِيٍّ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ-
ابوسعید، منصور بن وردان، علی بن عبدالاعلی، ان کے والد، ابوالبختری، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت (وَلِلّٰهِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْ تَ طَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا) 3۔ ال عمران : 97) نازل ہوئی (اور لوگوں پر اللہ کیلئے حج (بیت اللہ) کرنا (فرض) ہے۔ بشرطیکہ وہ اس کی طاقت رکھتے ہوں۔) تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا ہر سال (حج فرض ہے) ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے۔ لوگوں نے پھر کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا ہر سال (حج فرض ہے) ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال واجب ہو جاتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ( يٰ اَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْ َ لُوْا عَنْ اَشْيَا ءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ) 5۔ المائدہ : 101) (اے ایمان والو ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر وہ ظاہر کی جائیں تو تمہیں بری لگیں۔) یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے حسن غریب ہے۔ اس باب میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی روایت ہے۔
Sayyidina Ali (RA) narrated: When this verse;"And pilgrimage to the House is a duty of mankind towards Allah for him who is able to make his way to it." (3:97) was revealed, the sahabah asked, ‘O Messenger of Allah (SAW), is that every year?” He kept quiet. They repeated (their question), “O Messenger of Allah (SAW) is that every year?” He said, “No, and if I had said ‘yes’ then that would have become obligatory.” Allah the Glorious, the Majestic revealed: "O you who believe! Question not about things which, if they were disclosed to you, would annoy you."(5 :101) [Ibn e Majah 2884]
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ أَخْبَرَنِي مُوسَی بْنُ أَنَسٍ قَال سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ يَقُولُ قَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ أَبِي قَالَ أَبُوکَ فُلَانٌ فَنَزَلَتْ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَائَ إِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ-
محمد بن معمر ابوعبداللہ ابوعبداللہ بصری، روح بن عبادة، شعبة، موسیٰ بن انس، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا باپ کون ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تیرا باپ فلاں ہے۔ پس یہ آیت نازل ہوئی۔ ( يٰ اَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْ َ لُوْا عَنْ اَشْيَا ءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ ) 5۔ المائدہ : 101) (اے ایمان والو ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر وہ ظاہر کی جائیں تو تمہیں بری لگیں۔ المائدہ۔) یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
Sayyidina Anas (RA) narrated: A man asked, “O Messenger of Allah (SAW) , who is my father?” He said, “Your father si so-and-so.” Then the verse. "O you who believe! Question not about things which, if they were disclosed to you, would annoy you." (5 :101) was revealed. [Bukhari 4621,Muslim 2359,Ahmed 13146]
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي بَکْرٍ الصِّدِّيقِ أَنَّهُ قَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّکُمْ تَقْرَئُونَ هَذِهِ الْآيَةَ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْکُمْ أَنْفُسَکُمْ لَا يَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا ظَالِمًا فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَی يَدَيْهِ أَوْشَکَ أَنْ يَعُمَّهُمْ اللَّهُ بِعِقَابٍ مِنْهُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ مَرْفُوعًا وَرَوَی بَعْضُهُمْ عَنْ إِسْمَعِيلَ عَنْ قَيْسٍ عَنْ أَبِي بَکْرٍ قَوْلَهُ وَلَمْ يَرْفَعُوهُ-
احمد بن منیع، یزید بن ہارون، اسماعیل بن ابی خالد، قیس بن ابی حازم، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا لوگو تم یہ آیت پڑھتے ہو۔ (يٰ اَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ ) 5۔ المائدہ : 105) (اے ایمان والو تم پر اپنی جان کی فکر لازم ہے۔ تمہارا کچھ نہیں بگاڑتا جو کوئی گمراہ ہو جبکہ تم ہدایت یافتہ ہو۔) جبکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اگر لوگ ظالم کو ظلم سے نہیں روکیں گے تو قریب ہے کہ اللہ ان سب کو عذاب میں مبتلا کر دے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ کئی راوی اس حدیث کو اسماعیل بن خالد سے اسی کی مانند مرفوعاً نقل کرتے ہیں لیکن بعض حضرات اسماعیل سے وہ قیس سے اور وہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انہی کا قول نقل کرتے ہیں۔
Sayyidina Abu Bakr as-Siddiq (RA) said, “O people, you do read this verse:"O you who believe! Guard your own souls. He who has gone astray cannot harm you, if you are rightly guided." (5 : 105) I had heard Allah’s Messeneger (SAW) say: When people observe a wrongdoer and do not hold his hand away from that then it is near that Allah may enclose them in His punishment.
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَعْقُوبَ الطَّالَقَانِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَکِ أَخْبَرَنَا عُتْبَةُ بْنُ أَبِي حَکِيمٍ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ جَارِيَةَ اللَّخْمِيُّ عَنْ أَبِي أُمَيَّةَ الشَّعْبَانِيِّ قَالَ أَتَيْتُ أَبَا ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيَّ فَقُلْتُ لَهُ کَيْفَ تَصْنَعُ بِهَذِهِ الْآيَةِ قَالَ أَيَّةُ آيَةٍ قُلْتُ قَوْلُهُ تَعَالَی يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْکُمْ أَنْفُسَکُمْ لَا يَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ قَالَ أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ سَأَلْتَ عَنْهَا خَبِيرًا سَأَلْتُ عَنْهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ بَلْ ائْتَمِرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَتَنَاهَوْا عَنْ الْمُنْکَرِ حَتَّی إِذَا رَأَيْتَ شُحًّا مُطَاعًا وَهَوًی مُتَّبَعًا وَدُنْيَا مُؤْثَرَةً وَإِعْجَابَ کُلِّ ذِي رَأْيٍ بِرَأْيِهِ فَعَلَيْکَ بِخَاصَّةِ نَفْسِکَ وَدَعْ الْعَوَامَّ فَإِنَّ مِنْ وَرَائِکُمْ أَيَّامًا الصَّبْرُ فِيهِنَّ مِثْلُ الْقَبْضِ عَلَی الْجَمْرِ لِلْعَامِلِ فِيهِنَّ مِثْلُ أَجْرِ خَمْسِينَ رَجُلًا يَعْمَلُونَ مِثْلَ عَمَلِکُمْ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَکِ وَزَادَنِي غَيْرُ عُتْبَةَ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَجْرُ خَمْسِينَ مِنَّا أَوْ مِنْهُمْ قَالَ بَلْ أَجْرُ خَمْسِينَ مِنْکُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ-
سعید بن یعقوب طالقانی، عبداللہ بن مبارک، عقبہ بن حکیم، عمرو بن جاریة، لخمی، حضرت ابوامیہ شعبانی کہتے ہیں کہ میں ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گیا اور پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس آیت کے متعلق کیا کہتے ہیں فرمایا کہ کونسی آیت۔ میں نے عرض کیا (يٰ اَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ ) 5۔ المائدہ : 105)۔ فرمایا جان لو کہ میں نے اسکی تفسیر بڑے علم رکھنے والے سے پوچھی تھی۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسکی تفسیر پوچھی تو انہوں نے فرمایا بلکہ نیک اعمال کا حکم دو اور برائی سے منع کرو یہاں تک کہ تم ایسا بخیل دیکھو جسکی اطاعت کی جائے۔ خواہشات کی پیروی کی جانے لگے تو تم اپنی فکر کرو اور لوگوں کو چھوڑ دو اس لئے کہ تمہارے بعد ایسے دن آنے والے ہیں جن میں صبر کرنا اس طرح ہوگا۔ جیسے چنگاری ہاتھ میں لینا۔ اس زمانے میں سنت پر عمل کرنے والے کو تم جیسے پچاس (عمل کرنے والے) آدمیوں کا ثواب دیا جائے گا۔ عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ عتبہ کے علاوہ دوسرے راوی یہ الفاظ بھی نقل کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم میں سے پچاس آدمیوں کے برابر یا ان میں سے پچاس کے برابر۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔
Abu Umayyah Sha’bani narrated: I went to Abu Tha’labah Khushani and asked him what he said about this verse. He asked, “Which verse?” said: "O you who believe! Guard your own souls. He who has gone astray cannot harm you, if you are rightly guided." (5 : 105) He said, ‘Know that I had asked the well- knowing, I had asked Allah’s Messenger (SAW) about it. He said, ‘Enjoin righteousness and forbid evil till you see that a miser is being obeyed, base desires are pursued, the world is preferred to the Hereafter and everybody goes by his own opinion. Then, it is incumbent on you to think of yourself and leave others alone, for, days await you when patience would be like handling burning coal. In such times, one who abides by the sunnah will be given reward like fifty men’s (today)’.” Abdullah Ibn Mubarak said that narrators other than Utbah added this portion: Someone asked, “O Messenger of Allah (SAW) , is the reward of fifty men like us or like them?” He said, “No, rather reward of fifty men of you.” [Abu Dawud 4341, Ibn e Majah 4014]
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي شُعَيْبٍ الْحَرَّانِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْحَرَّانِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ أَبِي النَّضْرِ عَنْ بَاذَانَ مَوْلَی أُمِّ هَانِئٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ فِي هَذِهِ الْآيَةِ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِکُمْ إِذَا حَضَر أَحَدَکُمْ الْمَوْتُ قَالَ بَرِئَ مِنْهَا النَّاسُ غَيْرِي وَغَيْرَ عَدِيَّ بْنِ بَدَّائٍ وَکَانَا نَصْرَانِيَّيْنِ يَخْتَلِفَانِ إِلَی الشَّامِ قَبْلَ الْإِسْلَامِ فَأَتَيَا الشَّامَ لِتِجَارَتِهِمَا وَقَدِمَ عَلَيْهِمَا مَوْلًی لِبَنِي هَاشِمٍ يُقَالُ لَهُ بُدَيْلُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ بِتِجَارَةٍ وَمَعَهُ جَامٌ مِنْ فِضَّةٍ يُرِيدُ بِهِ الْمَلِکَ وَهُوَ عُظْمُ تِجَارَتِهِ فَمَرِضَ فَأَوْصَی إِلَيْهِمَا وَأَمَرَهُمَا أَنْ يُبَلِّغَا مَا تَرَکَ أَهْلَهُ قَالَ تَمِيمٌ فَلَمَّا مَاتَ أَخَذْنَا ذَلِکَ الْجَامَ فَبِعْنَاهُ بِأَلْفِ دِرْهَمٍ ثُمَّ اقْتَسَمْنَاهُ أَنَا وَعَدِيُّ بْنُ بَدَّائٍ فَلَمَّا قَدِمْنَا إِلَی أَهْلِهِ دَفَعْنَا إِلَيْهِمْ مَا کَانَ مَعَنَا وَفَقَدُوا الْجَامَ فَسَأَلُونَا عَنْهُ فَقُلْنَا مَا تَرَکَ غَيْرَ هَذَا وَمَا دَفَعَ إِلَيْنَا غَيْرَهُ قَالَ تَمِيمٌ فَلَمَّا أَسْلَمْتُ بَعْدَ قُدُومِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ تَأَثَّمْتُ مِنْ ذَلِکَ فَأَتَيْتُ أَهْلَهُ فَأَخْبَرْتُهُمْ الْخَبَرَ وَأَدَّيْتُ إِلَيْهِمْ خَمْسَ مِائَةِ دِرْهَمٍ وَأَخْبَرْتُهُمْ أَنَّ عِنْدَ صَاحِبِي مِثْلَهَا فَأَتَوْا بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُمْ الْبَيِّنَةَ فَلَمْ يَجِدُوا فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَسْتَحْلِفُوهُ بِمَا يُقْطَعُ بِهِ عَلَی أَهْلِ دِينِهِ فَحَلَفَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِکُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمْ الْمَوْتُ إِلَی قَوْلِهِ أَوْ يَخَافُوا أَنْ تُرَدَّ أَيْمَانٌ بَعْدَ أَيْمَانِهِمْ فَقَامَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ وَرَجُلٌ آخَرُ فَحَلَفَا فَنُزِعَتْ الْخَمْسُ مِائَةِ دِرْهَمٍ مِنْ عَدِيِّ بْنِ بَدَّائٍ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِصَحِيحٍ وَأَبُو النَّضْرِ الَّذِي رَوَی عَنْهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ هَذَا الْحَدِيثَ هُوَ عِنْدِي مُحَمَّدُ بْنُ السَّائِبِ الْکَلْبِيُّ يُکْنَی أَبَا النَّضْرِ وَقَدْ تَرَکَهُ أَهْلُ الْعِلْمِ بِالْحَدِيثِ وَهُوَ صَاحِبُ التَّفْسِيرِ سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ يَقُولُ مُحَمَّدُ بْنُ السَّائِبِ الْکَلْبِيُّ يُکْنَی أَبَا النَّضْرِ وَلَا نَعْرِفُ لِسَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ الْمَدَنِيِّ رِوَايَةً عَنْ أَبِي صَالِحٍ مَوْلَی أُمِّ هَانِئٍ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ شَيْئٌ مِنْ هَذَا عَلَی الِاخْتِصَارِ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ-
حسن بن احمد بن ابی شعیب حرانی، محمد بن سلمة حرانی، محمد بن اسحاق، ابونضر، باذان مولی ام ہانی، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ تمیم داری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت (يٰ اَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ) 5۔ المائدہ : 106) (اے ایمان والو جبکہ تم میں سے کسی کو موت آپہنچے تو وصیت کے وقت درمیان تم میں سے دو معتبر آدمی گواہ ہونے چاہیئں یا تمہارے سوا دو گواہ اور ہوں۔) کے متعلق کہتے ہیں کہ اس سے میرے اور عدی بن بداء کے علاوہ وہ سب لوگ بری ہوگئے۔ یہ دونوں اسلام لانے سے پہلے نصرانی تھے اور شام آتے جاتے رہے تھے۔ ایک مرتبہ وہ دونوں تجارت کیلئے شام گئے تو بنو سہم مولی بدیل بن ابی مریم انکے پاس تجارت کی غرض سے آیا۔ اس کے پاس چاندی کا ایک جام تھا وہ چاہتا تھا کہ یہ پیالہ بادشاہ کی خدمت میں پیش کرئے وہ اسکے مال میں بری چیز تھی۔ پھر وہ بیمار ہوگیا اور اسنے ان دونوں کو وصیت کی اور کہا کہ اس نے جو کچھ چھوڑا اسے اس کے مالکوں تک پہنچا دیں۔ تمیم کہتے ہیں جب وہ جرگیا تو ہم نے وہ پیالہ ایک ہزار درہم میں بیچ ڈالا اور رقم دونوں نے آپس میں تقسیم کر لی۔ ان کے گھر پہنچ کر ہم نے وہ سامان ان کے حوالے کر دیا۔ انہیں پیالہ نہ ملا۔ تو انہوں نے ہم سے اسکے متعلق پوچھا۔ ہم نے جواب دیا کہ اس نے یہی کچھ چھاڑا تھا اور ہمیں ان چیزوں کے علاوہ کوئی چیز نہیں دی۔ تمیم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ طیبہ تشریف لانے پر جب میں اسلام لایا تو میں نے اس گناہ کا ازالہ چاہا اور اس غلام کے مالکوں گھر گیا انہیں ساری بات بتائی اور انہیں پانچ سو درھم دے دیئے نیز یہ بھی بتایا کہ اتنی ہی رقم میرے ساتھی کے پاس بھی ہے۔ وہ لوگ عدی کو لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے گواہ طلب کئے جو کہ ان کے پاس نہیں تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ عدی سے اس کے دین کی عظیم ترین چیز کی قسم لیں۔ اس نے قسم کھا لی اور پھر یہ آیت نازل ہوئی (يٰ اَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ) 5۔ المائدہ : 106) چنانچہ عمرو بن عاص اور ایک شخص کھڑے ہوئے اور گواہی کی کہ پیالہ بدیل کے پاس تھا اور عدی جھوٹا ہے تو عدی بن بداء سے پانچ سو درہم چھین لئے گئے۔ یہ حدیث غریب ہے۔ اور اسکی سند صحیح نہیں۔ محمد بن اسحاق سے نقل کرنے والے راوی ابونضر کا نام محمد بن سائب کلبی ہے۔ اہل علم نے ان سے احادیث نقل کرنا ترک کر دیا ہے۔ یہ صاحب تفسیر ہے۔ میں (امام ترمذی) نے امام بخاری سے سنا کہ محمد بن ابی نضر کی ام ہانی کے موسیٰ ابوصالح سے منقول کوئی حدیث نہیں جانتے۔ یہ حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اس سند کے علاوہ مختصر طور پر منقول ہے۔
Sayyidina Tamim Dari (RA) referred to this verse: "O ye who believe! When death approaches any of you, (take) witnesses among yourselves when making bequests,- two just men of your own (brotherhood) or others from outside if ye are journeying through the earth, and the chance of death befalls you (thus). If ye doubt (their truth), detain them both after prayer, and let them both swear by Allah: "We wish not in this for any worldly gain, even though the (beneficiary) be our near relation: we shall hide not the evidence before Allah: if we do, then behold! the sin be upon us!"(5:106) He said, Apart from me and Adi ibn Baddah everyone was absioved.’ They had been both ChistiAnas (RA) travelling to and from Syrian before embracing Islam. Once while they went to Syria on a trade journey, the freedom of Banu Sahm Budayl ibn Abu Maryam came to them. He had a silver drinking glass with him which he intended to present to the king this being a precious merchandise. But, he fell ill and instructed the two men to deliver hie legacy to his family. Tamim said, “When he died, we sold the drinking glass for a thousand dirham and divided the proceeds between the two of us, myself and Adi ibn Badda. When we came to his family, we gave them what we had, and they missed the drinking glass. Theyaske4 us about it and we said that he had not left behind anything besides that (which we gave them) and he had not given us anything else. When I embraced Islam after the Prophet’s (SAW) arrival at Madinah, I was overwhelmed with this sin. So, I went to his family and disclosed to them the facts and paid them five hundred dinars telling them that my friend had as much. They took him to Allah’s Messenger (SAW) and he asked to produce witness which they did not have. So he commanded them to ask Adi to swear on the most valuable of his religion. He did take the oath.” Allah revealed the verse: "O ye who believe! When death approaches any of you, (take) witnesses among yourselves when making bequests,- two just men of your own (brotherhood) or others from outside if ye are journeying through the earth, and the chance of death befalls you (thus). If ye doubt (their truth), detain them both after prayer, and let them both swear by Allah: "We wish not in this for any worldly gain, even though the (beneficiary) be our near relation: we shall hide not the evidence before Allah: if we do, then behold! the sin be upon us!" (5:106) But if it be discovered that both of them merited the sin (of perjury), then two others shall stand up in their place, from among the nearest of those whose rights were sinned against so they should both swear by Allah (saying), “Certainly our testimony is truer than the testimony of these two, and we shall not have transgressed, for then we would certainly be among the evildoers.” Thus it is more likely that they will bear testimony in its exact form, or else they will fear that after their oaths, other oaths will be admitted in rebuttal of (their) oaths. (5: 106) So Amr ibn al-Aas stood up as did another man and they each took the oath. The five hundred dinars were taken away from Adi ibn Baddah. --------------------------------------------------------------------------------
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَکِيعٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ عَنْ ابْنِ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي الْقَاسِمِ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ خَرَجَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَهْمٍ مَعَ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ وَعَدِيِّ بْنِ بَدَّائٍ فَمَاتَ السَّهْمِيُّ بِأَرْضٍ لَيْسَ فِيهَا مُسْلِمٌ فَلَمَّا قَدِمْنَا بِتَرِکَتِهِ فَقَدُوا جَامًا مِنْ فِضَّةٍ مُخَوَّصًا بِالذَّهَبِ فَأَحْلَفَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ وُجِدَ الْجَامُ بِمَکَّةَ فَقِيلَ اشْتَرَيْنَاهُ مِنْ عَدِيٍّ وَتَمِيمٍ فَقَامَ رَجُلَانِ مِنْ أَوْلِيَائِ السَّهْمِيِّ فَحَلَفَا بِاللَّهِ لَشَهَادَتُنَا أَحَقُّ مِنْ شَهَادَتِهِمَا وَأَنَّ الْجَامَ لِصَاحِبِهِمْ قَالَ وَفِيهِمْ نَزَلَتْ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِکُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَهُوَ حَدِيثُ ابْنِ أَبِي زَائِدَةَ-
سفیان بن وکیع، یحیی بن آدم، ابن ابی زائدہ، محمد بن ابی قاسم، عبدالملک بن سعید بن جبیر، ان کے والد، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ قبیلہ بنو سہم کا ایک شخص تمیم داری اور عدی بن بداء کے ساتھ نکلا اور ایسی جگہ مر گیا جہاں کوئی مسلمان نہی تھا۔ جب وہ کونوں اسکا متروکہ مال لے کر آئے تو اس میں سے سونے کے جڑاؤ والا چاندی کا پیالہ غائب پایا گیا۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمیم اور عدی کو قسم دی۔ پھر تھوڑی مدت بعد وہ پیالہ مکہ میں پایا گیا اور ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے عدی اور تمیم سے خریدا ہے۔ پھر بدیل سہمی کے واثوں میں سے دو شخص کھڑے ہوئے اور قسم کھا کر کہا کہ ہماری گواہی ان دونوں کی گواہی سے زیادہ سچی ہے اور یہ کہ جام (پیالہ) ان کے آدمی کا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت انہی کے متعلق نازل ہوئی (يٰ اَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ) 5۔ المائدہ : 106) یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اور ابن ابی زائدہ کی حدیث ہے۔
Sayyidina Ibn Abbas (RA) reported that a man of Banu Sahm travelled with Tamim Dan and Adi ibn Badda. He died at a place where there was no Muslim . When they came with his property, a drinking cup of silver, gold plated, was missing. So, Allah’s Messenger (SAW) made them swear. Later the dirnking cup was found in Makkah and (the buyer) said that it was bought from Tamim Dan and Adi. So, two men to the heirs of Sahm stood up and swore by Allah testifying that their testimony was truer than the testimony of the other two, and that the drinking cup belonged to their man. It was about them that the verse. O ye who believe! When death approaches any of you, (take) witnesses among yourselves when making bequests,- two just men of your own (brotherhood) or others from outside if ye are journeying through the earth, and the chance of death befalls you (thus). If ye doubt (their truth), detain them both after prayer, and let them both swear by Allah: "We wish not in this for any worldly gain, even though the (beneficiary) be our near relation: we shall hide not the evidence before Allah: if we do, then behold! the sin be upon us!" (5: 106) was revealed. [Bukhari 2780,Abu Dawud 3606]
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ قَزَعَةَ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حَبِيبٍ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ خِلَاسِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُنْزِلَتْ الْمَائِدَةُ مِنْ السَّمَائِ خُبْزًا وَلَحْمًا وَأُمِرُوا أَنْ لَا يَخُونُوا وَلَا يَدَّخِرُوا لِغَدٍ فَخَانُوا وَادَّخَرُوا وَرَفَعُوا لِغَدٍ فَمُسِخُوا قِرَدَةً وَخَنَازِيرَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ قَدْ رَوَاهُ أَبُو عَاصِمٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ خِلَاسٍ عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ مَوْقُوفًا وَلَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْحَسَنِ بْنِ قَزَعَةَ-
حسن بن قزعة بصری، سفیان بن وکیع، سعید، قتادة، کلاس بن عمرو، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آسمان سے ایسا دستر خوان نازل کیا گیا جس میں روٹی اور گوشت تھا پھر انہیں حکم دیا گیا کہ اس میں خیانت نہ کریں اور کل کیلئے نہ رکھیں لیکن اب لوگوں نے خیانت نہ کریں اور کل کیلئے نہ رکھیں لیکن ان لوگوں نے خیانت بھی کی اور دوسرے دن کیلئے جمع بھی کیا۔ چنانچہ ان کے چہرے مسخ کر کے بندروں اور خنزیروں کی صورتیں بنادی گئیں۔ اس حدیث کو ابوعاصم اور کئی راوی سعید بن ابی عروبہ سے وہ قتادہ سے وہ خلاس سے اور وہ عمار سے موقوفاً نقل کرتے ہیں۔ ہم اس حدیث کو حسن بن قزعہ کی سند کے علاوہ نہیں جا نتے۔
Sayyidina Ammar ibn Yasir (RA) reported that Allah’s Messenger (SAW) said, “A tablespread with food was sent down from heaven containing bread and meat. And they were commanded that they should not cheat and not hoard for the morrow. But, they cheated and hoarded for the next day. So they were metamorphosed into apes and swines.”
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حَبِيبٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ نَحْوَهُ وَلَمْ يَرْفَعْهُ وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ الْحَسَنِ بْنِ قَزَعَةَ وَلَا نَعْلَمُ لِلْحَدِيثِ الْمَرْفُوعِ أَصْلًا-
حمید بن مسعد، سفیان بن حبیب، سعید بن ابی عروبہحمید بن مسعد بھی یہ حدیث سفیان بن حبیب سے اور وہ سعید بن ابی عروبہ سے اسی کی مانند نقل کرتے ہیں۔ لیکن یہ مرفوع نہیں۔ ہم مرفوع حدیث کی کوئی اصل نہیں جانتے اور یہ حسن بن قزعہ کی روایت سے زیادہ صحیح ہے۔
-
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ طَاوُوسٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ يُلَقَّی عِيسَی حُجَّتَهُ فَلَقَّاهُ اللَّهُ فِي قَوْلِهِ وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَی ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَقَّاهُ اللَّهُ سُبْحَانَکَ مَا يَکُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ الْآيَةَ کُلَّهَا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
ابن ابی عمر، سفیان، عمرو بن دینار، طاؤس، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ عیسیٰ علیہ السلام کو (قیامت کے دن) انکی دلیل سکھائیں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس قول میں اسی کی تعلیم دی ہے کہ (وَاِذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِيْ وَاُمِّيَ اِلٰ هَيْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ) 5۔ المائدہ : 116) (اور جب اللہ فرمائے گا، اے عیسیٰ بیٹے مریم کے کیا تو نے لوگوں سے کیا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی خدا (معبود) بنا لو۔) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کا جواب اس طرح سکھایا ( سُبْحٰنَكَ مَا يَكُوْنُ لِيْ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَيْسَ لِيْ بِحَقٍّ ) 5۔ المائدہ : 116) (وہ عرض کرے گا تو پاک ہے، مجھے لائق نہیں کہ ایسی بات کہوں کہ جس کا مجھے حق نہیں۔ اگر میں نے یہ کہا ہوگا تجھے ضرور معلوم ہوگا۔ جو میرے دل میں ہے تو جانتا ہے اور جو تیرے دل میں ہے وہ میں نہیں جانتا۔ بے شک تو ہی چھپی ہوئی باتوں کو جا ننے والا ہے۔)
Sayyidina Abu Huraira (RA) said, “Eesa was inspired with his argument. Allah inspired him in His saying."And (recall) when Allah will say, 'O Eesa son of Maryam! Did you say to mankind. Take me andmy mother for two goods besides Allah?'" (5 :116)Abu Huraira (RA) reported from the Prophet (SAW)that Allah will inspire him with:"Glory to Thee! never could I say what I had no right (to say). Had I said such a thing, thou wouldst indeed have known it. Thou knowest what is in my heart, Thou I know not what is in Thine. For Thou knowest in full all that is hidden."(5:116)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ عَنْ حُيَيٍّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ آخِرُ سُورَةٍ أُنْزِلَتْ الْمَائِدَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَرُوِي عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ آخِرُ سُورَةٍ أُنْزِلَتْ إِذَا جَائَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ بَعْدَ الْمَائِدَةِ-
قتیبہ ، عبداللہ بن وہب، حیی، ابوعبدالرحمن حبلی، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آخر میں نازل ہونیوالی سورتیں، سورت مائدہ اور سورت فتح ہیں۔ یہ حدیث حسن غریب ہے اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ آخری نازل ہونے والی سورت سورت نصر إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ ہے۔
Sayyidina Abdullah ibn Amr said that the last surahs revealed were the surahs al-Maidah and al-Fath. (surah 5 & 48) [Abu Dawud 1618] --------------------------------------------------------------------------------