اللہ تعالیٰ کی بندوں کے لیے مثال

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ الْکِلَابِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ ضَرَبَ مَثَلًا صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا عَلَی کَنَفَيْ الصِّرَاطِ زُورَانِ لَهُمَا أَبْوَابٌ مُفَتَّحَةٌ عَلَی الْأَبْوَابِ سُتُورٌ وَدَاعٍ يَدْعُو عَلَی رَأْسِ الصِّرَاطِ وَدَاعٍ يَدْعُو فَوْقَهُ وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلَی دَارِ السَّلَامِ وَيَهْدِي مَنْ يَشَائُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ وَالْأَبْوَابُ الَّتِي عَلَی کَنَفَيْ الصِّرَاطِ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا يَقَعُ أَحَدٌ فِي حُدُودِ اللَّهِ حَتَّی يُکْشَفَ السِّتْرُ وَالَّذِي يَدْعُو مِنْ فَوْقِهِ وَاعِظُ رَبِّهِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ قَالَ سَمِعْت عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يَقُولُ سَمِعْتُ زَکَرِيَّا بْنَ عَدِيٍّ يَقُولُ قَالَ أَبُو إِسْحَقَ الْفَزَارِيُّ خُذُوا عَنْ بَقِيَّةَ مَا حَدَّثَکُمْ عَنْ الثِّقَاتِ وَلَا تَأْخُذُوا عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ عَيَّاشٍ مَا حَدَّثَکُمْ عَنْ الثِّقَاتِ وَلَا غَيْرِ الثِّقَاتِ-
علی بن حجر سعدی، بقیة بن ولید، بحیربن سعد، خالد بن معدان، جبیر بن نفیر، حضرت نو اس بن سمعان کلابی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم کی اس طرح مثال دی ہے کہ وہ ایسی راہ ہے جس کے دونوں جانب دیواریں ہیں جن میں جابجا دروازے لگے ہوئے ہیں جن پر پردے لٹک رہے ہیں۔ پھر ایک بلانے والا اس راستے کے سرے پر کھڑا ہو کر اور ایک اس کے اوپر کھڑا ہو کر بلا رہا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت پڑھی "وَاللّٰهُ يَدْعُوْ ا اِلٰى دَارِ السَّلٰمِ وَيَهْدِيْ مَنْ يَّشَا ءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَ قِيْمٍ " 10۔یونس : 25)۔ (یعنی اللہ جنت کی طرف بلاتا ہے اور جسے چاہتا ہے سیدھی راہ پر چلا دیتا ہے) اور وہ دروازے جو راستے کے دونوں جانب ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی حددود (حرام کی ہوئی چیزیں) ہیں۔ ان میں اس وقت تک کوئی گرفتار نہیں ہو سکتا جب تک پردہ نہ اٹھائے یعنی صغیرہ گناہوں کا ارتکاب نہ کرے اور اس راستے کے اوپر پکارنے والا اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ نصیحت کرنے والا ہے۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ میں نے عبداللہ بن عبدالرحمن کو زکریا بن عدی کے حوالے سے ابواسحاق فزاری کا یہ قول نقل کرتے ہوئے سنا کہ بقیہ بن ولید کی وہی روایتیں لو جو وہ ثقہ لوگوں سے روایت کرتے ہیں اور اسماعیل بن عیاش کی کسی روایت کا اعتبار نہ کرو خواہ وہ ثقہ سے نقل کرے یا غیرثقہ سے۔
Sayyidina Nawwas ibn Sam’an Kilabi (RA) reported that Allah’s Messenger (SAW) said that Allah drew the parable of the straight path as having walls on either side with several open doors over which curtains hang down. At the head of the path is one who invites and another above it invites, the Prophet (SAW) recited: ‘And Allah invites (you) to the abode of peace, and guides whomsoever He will to the straight way.’ (Al-Quran 10:25) The doors on either side of the path are hudud (limits) of Allah. None will fall into the limits of Allah till he raises the curtain, meaning commit minor sins. The crier at the top of the path is e admonisher from his Lord. [Ahmed 17651]
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيَّ قَالَ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فَقَالَ إِنِّي رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ کَأَنَّ جِبْرِيلَ عِنْدَ رَأْسِي وَمِيکَائِيلَ عِنْدَ رِجْلَيَّ يَقُولُ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ اضْرِبْ لَهُ مَثَلًا فَقَالَ اسْمَعْ سَمِعَتْ أُذُنُکَ وَاعْقِلْ عَقَلَ قَلْبُکَ إِنَّمَا مَثَلُکَ وَمَثَلُ أُمَّتِکَ کَمَثَلِ مَلِکٍ اتَّخَذَ دَارًا ثُمَّ بَنَی فِيهَا بَيْتًا ثُمَّ جَعَلَ فِيهَا مَائِدَةً ثُمَّ بَعَثَ رَسُولًا يَدْعُو النَّاسَ إِلَی طَعَامِهِ فَمِنْهُمْ مَنْ أَجَابَ الرَّسُولَ وَمِنْهُمْ مَنْ تَرَکَهُ فَاللَّهُ هُوَ الْمَلِکُ وَالدَّارُ الْإِسْلَامُ وَالْبَيْتُ الْجَنَّةُ وَأَنْتَ يَا مُحَمَّدُ رَسُولٌ فَمَنْ أَجَابَکَ دَخَلَ الْإِسْلَامَ وَمَنْ دَخَلَ الْإِسْلَامَ دَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَنْ دَخَلَ الْجَنَّةَ أَکَلَ مَا فِيهَا وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِسْنَادٍ أَصَحَّ مِنْ هَذَا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ مُرْسَلٌ سَعِيدُ بْنُ أَبِي هِلَالٍ لَمْ يُدْرِکْ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ-
قتیبہ ، لیث، خالد بن یزید، سعید بن ابی ہلال، حضرت جابر بن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرف نکلے اور فرمایا میں نے خواب میں دیکھا کہ جبرائیل علیہ السلام میرے سرہانے اور میکائیل علیہ السلام میرے پاؤں کے پاس کھڑے ہیں اور آپس میں کہہ رہے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مثال بیان کرو۔ دوسرے نے کہا (اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !) سنیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کان ہمیشہ سنتے رہیں اور سمجھئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل ہمیشہ سمجھتا رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی مثال اس طرح ہے کہ ایک بادشاہ نے ایک بڑا مکان بنایا۔ پھر اس میں ایک گھر بنایا پھر وہاں ایک دسترخوان لگوا کر ایک قاصد کو بھیجا کہ لوگوں کو کھانے کی دعوت دے چنانچہ بعض نے اس کی دعوت قبول کی اور بعض نے دعوت قبول نہیں کی۔ یعنی اللہ بادشاہ ہیں وہ بڑا مکان اسلام ہے اور اس کے اندر والا گھر جنت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اے محمد ! پیغمبر ہیں۔ جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت قبول کی اسلام میں داخل ہوا، جو اسلام میں داخل ہوا وہ جنت میں داخل ہوگیا اور جو جنت میں داخل ہوگیا اس نے اس میں موجود چیزیں کھالیں۔ یہ حدیث مرسل ہے اس لیے کہ سعید بن ابی ہلال نے جابر بن عبداللہ کو نہیں پایا۔ اس باب میں ابن مسعود سے بھی روایت ہے۔ یہ حدیث اس کے علاوہ اور سند سے بھی منقول ہے۔ وہ سند اس سے زیادہ صحیح ہے۔
SayyidinaJabir ibn Abdullah Ansari (RA) narrated: One day Allah’s Messenger (SAW) came our way. He said: I saw in my dream that Jibril stood at the side of my head and Mikail by my feet. One of them said to the other, “Coin for him a parable.” The other said, “Listen (0 Prophet). May your ears listen always. Comprehend. May your heart grasp always. The parable of you and of your ummah is like a king who takes a house and builds a home. He places there a dining mat and sends a man to invite people to food. There are some who accept his invitation and some who reject him. So, Allah is the King. The house is Islam and the home is paradise, and you, O Muhammad, are the Messenger. He who answers you, joins Islam and he who joins Islam, enters Paradise and he who enters Paradise, eats that which is in it.” [Ahmed 7281]
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ صَلَّی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَائَ ثُمَّ انْصَرَفَ فَأَخَذَ بِيَدِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ حَتَّی خَرَجَ بِهِ إِلَی بَطْحَائِ مَکَّةَ فَأَجْلَسَهُ ثُمَّ خَطَّ عَلَيْهِ خَطًّا ثُمَّ قَالَ لَا تَبْرَحَنَّ خَطَّکَ فَإِنَّهُ سَيَنْتَهِي إِلَيْکَ رِجَالٌ فَلَا تُکَلِّمْهُمْ فَإِنَّهُمْ لَا يُکَلِّمُونَکَ قَالَ ثُمَّ مَضَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيْثُ أَرَادَ فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ فِي خَطِّي إِذْ أَتَانِي رِجَالٌ کَأَنَّهُمْ الزُّطُّ أَشْعَارُهُمْ وَأَجْسَامُهُمْ لَا أَرَی عَوْرَةً وَلَا أَرَی قِشْرًا وَيَنْتَهُونَ إِلَيَّ وَلَا يُجَاوِزُونَ الْخَطَّ ثُمَّ يَصْدُرُونَ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی إِذَا کَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ لَکِنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ جَائَنِي وَأَنَا جَالِسٌ فَقَالَ لَقَدْ أَرَانِي مُنْذُ اللَّيْلَةَ ثُمَّ دَخَلَ عَلَيَّ فِي خَطِّي فَتَوَسَّدَ فَخِذِي فَرَقَدَ وَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَقَدَ نَفَخَ فَبَيْنَا أَنَا قَاعِدٌ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَسِّدٌ فَخِذِي إِذَا أَنَا بِرِجَالٍ عَلَيْهِمْ ثِيَابٌ بِيضٌ اللَّهُ أَعْلَمُ مَا بِهِمْ مِنْ الْجَمَالِ فَانْتَهَوْا إِلَيَّ فَجَلَسَ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ رَأْسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَطَائِفَةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ رِجْلَيْهِ ثُمَّ قَالُوا بَيْنَهُمْ مَا رَأَيْنَا عَبْدًا قَطُّ أُوتِيَ مِثْلَ مَا أُوتِيَ هَذَا النَّبِيُّ إِنَّ عَيْنَيْهِ تَنَامَانِ وَقَلْبُهُ يَقْظَانُ اضْرِبُوا لَهُ مَثَلًا مَثَلُ سَيِّدٍ بَنَی قَصْرًا ثُمَّ جَعَلَ مَأْدُبَةً فَدَعَا النَّاسَ إِلَی طَعَامِهِ وَشَرَابِهِ فَمَنْ أَجَابَهُ أَکَلَ مِنْ طَعَامِهِ وَشَرِبَ مِنْ شَرَابِهِ وَمَنْ لَمْ يُجِبْهُ عَاقَبَهُ أَوْ قَالَ عَذَّبَهُ ثُمَّ ارْتَفَعُوا وَاسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِکَ فَقَالَ سَمِعْتَ مَا قَالَ هَؤُلَائِ وَهَلْ تَدْرِي مَنْ هَؤُلَائِ قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ هُمْ الْمَلَائِکَةُ فَتَدْرِي مَا الْمَثَلُ الَّذِي ضَرَبُوا قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ الْمَثَلُ الَّذِي ضَرَبُوا الرَّحْمَنُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی بَنَی الْجَنَّةَ وَدَعَا إِلَيْهَا عِبَادَهُ فَمَنْ أَجَابَهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَنْ لَمْ يُجِبْهُ عَاقَبَهُ أَوْ عَذَّبَهُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَأَبُو تَمِيمَةَ هُوَ الْهُجَيْمِيُّ وَاسْمُهُ طَرِيفُ بْنُ مُجَالِدٍ وَأَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُلٍّ وَسُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ قَدْ رَوَی هَذَا الْحَدِيثَ عَنْهُ مُعْتَمِرٌ وَهُوَ سُلَيْمَانُ بْنُ طَرْخَانَ وَلَمْ يَکُنْ تَيْمِيًّا وَإِنَّمَا کَانَ يَنْزِلُ بَنِي تَيْمٍ فَنُسِبَ إِلَيْهِمْ قَالَ عَلِيٌّ قَالَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ مَا رَأَيْتُ أَخْوَفَ لِلَّهِ تَعَالَی مِنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ-
محمد بن بشار، محمد بن ابی عدی، فعفر بن میمون، ابوتمیمة ہجیمی، ابوعثمان، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ عشاء کی نماز پڑھی اور عبداللہ بن مسعود کا ہاتھ پکڑ کر بطحاء کی طرف نکل گئے وہاں پہنچ کر انہیں بٹھایا اور ان کے گرد ایک خط (لکیر) کھینچ کر فرمایا تم اس خط سے باہر نہ نکلنا۔ تمہارے پاس کچھ لوگ آئیں گے تم سے بات نہ کرنا (اگرتم نہیں کرو گے) تو وہ بھی تم سے بات نہیں کریں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہاں کا ارادہ کیا تھا۔ چلے گئے میں وہیں بیٹھا ہوا تھا کہ میرے پاس کچھ لوگ (یعنی جن) آئے گویا کہ وہ جاٹ ہیں۔ ان کے بال اور بدن نہ تو میں ننگے دیکھتا تھا اور نہ ہی ڈھکے ہوئے۔ وہ میرے طرف آئے لیکن اس خط (لکیر) سے تجاوز نہ کر سکتے۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف جاتے۔ یہاں تک کہ رات کا آخری حصہ ہوگیا۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا میں پوری رات نہیں سو سکا۔ پھر میری خط میں داخل ہوئے اور میری ران کو تکیہ بنا کر لیٹ گئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سوتے تو خر اٹے لینے لگتے میں اسی حال میں تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری ران پر سر رکھے سو رہے تھے کہ کچھ لوگ آئے جنہوں نے سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ ان کے حسن و جمال کو اللہ ہی جانتا ہے۔ وہ لوگ مجھ تک آئے پھر ایک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرہانے بیٹھ گئی اور دوسری آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں کے پاس۔ پھر کہنے لگے ہم کوئی بندہ ایسا نہیں دیکھا جسے وہ کچھ دیا گیا ہو۔ جو اس نبی کو عطاء کیا گیا ہے۔ ان کی آنکھیں سوتی ہیں اور دل جاگتا رہتا ہے۔ ان کے لیے مثال بیان کرو۔ ان کی مثال ایک سردار جیسی ہے جس نے محل بنایا اور اس میں دسترخوان لگوا کر لوگوں کو کھانے پینے کے لیے بلایا۔ پھر جس نے اس کی دعوت قبول کی اس نے کھایا پیا اور جس نے دعوت قبول نہیں کی اس نے اسے سزا دی یا فرمایا عذاب دیا۔ پھر وہ لوگ اٹھ گئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جاگ گئے۔ اور فرمایا تم نے سنا ان لوگوں نے کیا کہا۔ جانتے ہو یہ کون تھے؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ فرشتے تھے۔ جو مثال انہوں نے بیان کی جانتے ہو وہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا انہوں نے جو مثال بیان کی وہ یہ ہے کہ رحمان نے جنت بنائی اور لوگوں کو بلایا۔ جس نے اس کی دعوت قبول کی وہ جنت میں داخل ہوگیا اور جس نے انکار کیا اسے عذاب دیا۔ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ ابوتمیمہ کا نام طریف بن مجالد ہے۔ ابوعثمان نہدی کا نام عبدالرحمن بن مل ہے۔ سلیمان تیمی، ابن طرخان ہیں۔ وہ قبیلہ بنی تمیم میں جایا کرتے تھے اس لیے تیمی مشہور ہوگئے۔ علی، یحیی بن سعید کا قول نقل کرتے ہیں کہ میں کسی کو سلیمان سے زیادہ اللہ سے ڈرتے ہوئے نہیں دیکھا۔
Sayyidina Abdullah Ibn Mas’ud (RA) narrated: Allah’s Messenger (SAW) offered the isha salah. When it was over, he held me by the hand till he took me to Batha of Makkah and made me sit. He drew a line around me, saying, ‘Do not come out of this line. People will come to you but do not talk to them and they too will not talk to you.” Then he went away to where he had intented to go. I sat within the lines when some men came to me as though they were of a rough nature. Their hair and their bodies seemed to me neither naked nor covered. They set towards me but did not trespass the line and then went towards Allah’s Messenger. This till it was the concluding hour of the night. Allah’s Messenger (SAW) came to me and I was sitting. He said, “I could not sleep all night.” Then he came within the lines and took my thigh as a pillow and went to sleep. When he slept, he would snore. While I was sitting and he was resting on my thigh, some men dressed in white came. Only Allah knows how beautiful they were. They came up to me. A party of them sat down by the head of Allah’s Messenger (SAW) and a party of them by his feet. Then they spoke to each other, saying, “We have not seen a man given the like of what is given to this Prophet. His eyes sleep but his heart is awake. Coin for him a parable. Like a chief who built a castle and placed a dining table and invited the people to his meal and his drink. So, those who responded ate of his food and drank of his drinks. And, he who did not respond was punished.” Then they got up (and went away). Allah’s Messenger (SAW) woke up at that and asked, “Did you hear what they said? And do you know who they were”? I said that Allah and His Messenger (SAW) know best.” He said, “They were angels. Do you understand the example they presented”? I said, “Allah and His Messenger (SAW) know best.” He said, “The example that they coined was of Ar-Rahman (the Compassionate) Who built Paradise and invited His slaves to it. So those who responded, entered Paradise and those who did not respond, He punished them.” --------------------------------------------------------------------------------