ابن صیاد کے بارے میں

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَکِيعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی عَنْ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ صَحِبَنِي ابْنُ صَائِدٍ إِمَّا حُجَّاجًا وَإِمَّا مُعْتَمِرِينَ فَانْطَلَقَ النَّاسُ وَتُرِکْتُ أَنَا وَهُوَ فَلَمَّا خَلَصْتُ بِهِ اقْشَعْرَرْتُ مِنْهُ وَاسْتَوْحَشْتُ مِنْهُ مِمَّا يَقُولُ النَّاسُ فِيهِ فَلَمَّا نَزَلْتُ قُلْتُ لَهُ ضَعْ مَتَاعَکَ حَيْثُ تِلْکَ الشَّجَرَةِ قَالَ فَأَبْصَرَ غَنَمًا فَأَخَذَ الْقَدَحَ فَانْطَلَقَ فَاسْتَحْلَبَ ثُمَّ أَتَانِي بِلَبَنٍ فَقَالَ لِي يَا أَبَا سَعِيدٍ اشْرَبْ فَکَرِهْتُ أَنْ أَشْرَبَ مِنْ يَدِهِ شَيْئًا لِمَا يَقُولُ النَّاسُ فِيهِ فَقُلْتُ لَهُ هَذَا الْيَوْمُ يَوْمٌ صَائِفٌ وَإِنِّي أَکْرَهُ فِيهِ اللَّبَنَ قَالَ لِي يَا أَبَا سَعِيدٍ هَمَمْتُ أَنْ آخُذَ حَبْلًا فَأُوثِقَهُ إِلَی شَجَرَةٍ ثُمَّ أَخْتَنِقَ لِمَا يَقُولُ النَّاسُ لِي وَفِيَّ أَرَأَيْتَ مَنْ خَفِيَ عَلَيْهِ حَدِيثِي فَلَنْ يَخْفَی عَلَيْکُمْ أَلَسْتُمْ أَعْلَمَ النَّاسِ بِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ کَافِرٌ وَأَنَا مُسْلِمٌ أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ عَقِيمٌ لَا يُولَدُ لَهُ وَقَدْ خَلَّفْتُ وَلَدِي بِالْمَدِينَةِ أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَدْخُلُ أَوْ لَا تَحِلُّ لَهُ مَکَّةُ وَالْمَدِينَةُ أَلَسْتُ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ وَهُوَ ذَا أَنْطَلِقُ مَعَکَ إِلَی مَکَّةَ فَوَاللَّهِ مَا زَالَ يَجِيئُ بِهَذَا حَتَّی قُلْتُ فَلَعَلَّهُ مَکْذُوبٌ عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ يَا أَبَا سَعِيدٍ وَاللَّهِ لَأُخْبِرَنَّکَ خَبَرًا حَقًّا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْرِفُهُ وَأَعْرِفُ وَالِدَهُ وَأَعْرِفُ أَيْنَ هُوَ السَّاعَةَ مِنْ الْأَرْضِ فَقُلْتُ تَبًّا لَکَ سَائِرَ الْيَوْمِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
سفیان بن وکیع، عبدالاعلی، جریری، ابونضرة، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابن صیاد نے میرے ساتھ حج یا عمرے کا سفر کیا تو لوگ آگے بڑھ گئے اور وہ پیچھے رہ گئے جب میں اس کے ساتھ تنہا رہ گیا تو میرا دل خوف کی وجہ سے دھڑکنے لگا اور مجھے اس سے وحشت ہونے لگی کیونکہ لوگ اس کی متعلق کہا کرتے تھے کہ دجال وہی ہے جب میں ایک جگہ ٹھہرا تو اس سے کہا کہ اپنا سامان واپس درخت کے نیچے رکھا اتنے میں اس نے کچھ بکریاں دیکھیں تو پیالہ لے کر گیا اور ان کا دودھ نکال کر لایا اور مجھ سے کہا کہ اسے پیو لیکن مجھے اس کے ہاتھ سے کوئی چیز پینے میں کراہت محسوس ہوئی کیونکہ لوگ اسے دجال کہتے تھے پس میں اس سے یہ کہہ دیا کہ آج گرمی ہے اور میں گرمی میں دودھ پینا پسند نہیں کرتا اس نے کہا ابوسعید میں نے لوگوں کی ان باتوں سے جو وہ میرے متعلق کہتے ہیں تنگ آ کر فیصلہ کیا کہ رسی لے کر درخت سے باندھوں اور گلا گھونٹ کر مرجاؤں دیکھو اگر میری حیثیت کسی اور پر پوشیدہ رہے تو رہے تم لوگوں پر تو پوشیدہ نہیں رہنی چاہئے اس لئے کہ تم لوگ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام لوگوں سے زیادہ جانتے ہو اے انصار کی جماعت کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ کافر ہوگا جبکہ میں مسلمان ہوں کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ ناقابل تولد ہوگا اور اس کی اولاد نہ ہوگی جبکہ میں نے اپنا بچہ مدینہ میں چھوڑا ہے پھر کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ مکہ میں داخل نہیں ہو سکتا جبکہ میں اہل مدینہ میں سے ہوں اور اس وقت تمہارے ساتھ مکہ جا رہا ہوں ابوسعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس نے اس قسم کی دلیلیں پیش کیں کہ میں سوچنے لگا کہ شاید لوگ اس کے متعلق جھوٹی باتیں کہتے ہوں گے پھر اس نے کہا ابوسعید میں تمہیں ایک سچی خبر بتاتا ہوں کہ اللہ کی قسم میں دجال اور اس کے باپ کو جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ اس وقت کہاں ہے جب اس نے یہ بات کہی تو میں نے کہا تجھ پر سارے دن کی ہلاکت ہو یعنی مجھے پھر اس سے بدگمانی ہوگئی کیونکہ آخر میں اس نے ایسی بات کہہ دی تھی یہ حدیث حسن ہے
Sayyidina Abu Sa’eed (RA) narrated lbn Sayyad performed Hajj or Umrah with me. (During the journey), people overtook us and the two of us were left behind (to ourselves). When I was alone with him, I sensed a fear. I was terrified because people used to say things about him. When I stopped (at a place), I said to him, ‘Put down your provision by this tree,” He spied some sheep,.so took a bowl to them and brought their milk, saying to me, “Drink O Abu Sa’eed.’ I disliked to drink anything from his hands because of what people said about him. So, I said to him, “This is a hot day and I do not like milk in the heat.” He said, “O Abu Sa’eed, I have resolved to take a rope and tie it to the tree and strangulate my neck because of what people say about me. Do you see that if my condition is concealed from others, it is not concealed from you. You know better than other people the hadith of Allah’s Messenger ‘O company of the Ansar, has not Allah’s Messenger (SAW) said, He (dajjal) is a disbeliever, but I Messenger (SAW) say that he is childless, but I have left behind my son in Madinah. Did he not say that the (dajjal) cannot enter Makkah, but am I not one of the people of Madinah? And I am going to Makkah with you.” He did not cease to speak in this fashion till I thought that people might be lying about him. He then said, ‘0 Abu Sa’eed ! Indeed, I will inform you Of a news a true news. By Allah, I know him° and I know his father and where he is on earth now.” So, I said, “May evil befall you, all day!” [Muslim 2927]
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِابْنِ صَيَّادٍ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَهُوَ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ وَهُوَ غُلَامٌ فَلَمْ يَشْعُرْ حَتَّی ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظَهْرَهُ بِيَدِهِ ثُمَّ قَالَ أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ابْنُ صَيَّادٍ قَالَ أَشْهَدُ أَنَّکَ رَسُولُ الْأُمِّيِّينَ ثُمَّ قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَشْهَدُ أَنْتَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آمَنْتُ بِاللَّهِ وَبِرُسُلِهِ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَأْتِيکَ قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ يَأْتِينِي صَادِقٌ وَکَاذِبٌ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُلِّطَ عَلَيْکَ الْأَمْرُ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي خَبَأْتُ لَکَ خَبِيئًا وَخَبَأَ لَهُ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَائُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ هُوَ الدُّخُّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْسَأْ فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَکَ قَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ائْذَنْ لِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ يَکُ حَقًّا فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَيْهِ وَإِنْ لَا يَکُنْهُ فَلَا خَيْرَ لَکَ فِي قَتْلِهِ قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ يَعْنِي الدَّجَّالَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری، سالم، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے چند صحابہ کے ساتھ ابن صیاد کے پاس سے گزرے وہ بنومغالہ کے قلعے کے پاس لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا آپ کی آمد کا اسے اس وقت تک اندازہ نہ ہوا جب تک نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست مبارک اس کی پیٹھ پر نہیں مار دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا میں اللہ کا رسول ہوں ابن صیاد نے آپ کی طرف دیکھا اور کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ آدمیوں کے رسول ہیں پھر ابن صیاد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتا ہوں پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ تمہارے پاس کس قسم کی خبریں آتی ہیں ابن صیاد نے کہا جھوٹی اور سچی بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تو پھر تیرا کام مختلط ہوگیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے دل میں تمہارے متعلق کوئی بات سوچی ہے اور آپ نے یہ آیت سوچ لی (يَوْمَ تَأْتِي السَّمَائُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ) ابن صیاد نے کہا وہ بات دخ ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دھتکار ہو تم پر تم اپنی اوقات سے آگے نہیں بڑھ سکتے حضرت عمر نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اجازت دیجئے میں اس کی گردن اتار دوں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر یہ دجال ہی ہے تو اللہ تعالیٰ تمہیں اسے قتل کرنے کی قدرت نہیں دے گا اور اگر وہ نہیں تو اسے مارنے میں تمہارے لئے بھلائی نہیں ہے عبدالرزاق کہتے ہیں کہ اس سے مراد دجال ہی ہے
Sayyidina lbn Umar (RA) reported that Allah’s Messenger and some of his sahabah, Umar (RA) among them, passed by Ibn Sayyad. He was playing with some children near the fort of Banu Maghalah. He was a child and did not perceive that the Prophet (SAW) come until he touched him on his back with his hand and said, Do you bear witness that I am Allah’s Messenger ?“ Ibn Sayyad looked at him and said, ‘I bear witness that you are the Messenger for the unlettered.” Then he said to the Prophet (SAW), “Do you bear witness that I am Allah’s Messenger ?“ The Prophet (SAW) said, “I believe in Allah and His Messenger He then asked, “What do you get (of news)?” Ibn Sayyad said, “I get true and false (information).” So the Prophet (SAW) ‘ said, “It is confused over you.” He then said, “I think of something about you” and he thought for him the verse: 'When the heaven shall bring a manifest smoke.' (44: 10). So, Ibn Sayyad said, “It is smoke.” Allah’s Messenger said, “Off you go! You cannot go beyond that.” Umar (RA) said, “O Messenger of Allah, (SAW) ‘ allow me to strike off his neck!” But, Allah’s Messenger said, “If he is true, you will have no power over him. But if he is not then there is no good in killing him.” Abdur Razzaq said, “that meant the dajjal.” [Ahmed 6368] --------------------------------------------------------------------------------
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَکِيعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی عَنْ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ لَقِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْنَ صَائِدٍ فِي بَعْضِ طُرُقِ الْمَدِينَةِ فَاحْتَبَسَهُ وَهُوَ غُلَامٌ يَهُودِيٌّ وَلَهُ ذُؤَابَةٌ وَمَعَهُ أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ فَقَالَ أَتَشْهَدُ أَنْتَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آمَنْتُ بِاللَّهِ وَمَلَائِکَتِهِ وَکُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا تَرَی قَالَ أَرَی عَرْشًا فَوْقَ الْمَائِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرَی عَرْشَ إِبْلِيسَ فَوْقَ الْبَحْرِ قَالَ فَمَا تَرَی قَالَ أَرَی صَادِقًا وَکَاذِبِينَ أَوْ صَادِقِينَ وَکَاذِبًا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لُبِسَ عَلَيْهِ فَدَعَاهُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي ذَرٍّ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَجَابِرٍ وَحَفْصَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ-
سفیان بن وکیع، عبدالاعلی، جریری، ابونضرة، حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینہ طیبہ کے ایک راستہ میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات ابن صیاد سے ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے روک لیا وہ یہودی لڑکا تھا اس کے سر پر بالوں کی چوٹی تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تو میری رسالت کی گواہی دیتا ہے ابن صیاد نے کہا کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں اللہ، اس کے فرشتوں، کتابوں، رسولوں اور آخرت کے دن پر ایمان لایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا تو کیا دیکھتا ہے ابن صیاد نے کہا میں پانی پر تخت دیکھتا ہوں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دریا پر شیطان کا تخت دیکھ رہا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا اور کیا دیکھتا ہے ابن صیاد نے کہا ایک سچا اور دو جھوٹے یا دو سچے اور ایک جھوٹا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس پر معاملہ خلط ملط ہوگیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے الگ ہوگئے اس باب میں حضرت عمر، حسین بن علی، ابن عمر، ابوذر، ابن مسعود، جابر اور حفصہ سے بھی احادیث منقول ہیں یہ حدیث حسن ہے
Sayyidina Abu Sa’eed (RA) narrated : Allah Messenger met Ibn Sayyad on some roads of Madinah. He stopped him. Ibn Sayyad was a Jew child who had long hair plaited on the head. Sayyidina Abu Bakr (RA) and Umar (RA) were with the Prophet (SAW), who said to him, “Testify that I am Allah’s Messenger.” He said, “Do you testify that I am Allahs Messenger?” So, he said, ‘1 believe in Allah, His Books His Messenger (SAW) and the Last Day.’ Then the Prophet (SAW) asked him, “What do you.see?” He said, “I see a throne above water.’ The Prophet (SAW) said to him, “You see the throne of Iblis above the ocean.” He again asked him what he saw and Ibn Sayyad said, “I see one true and two false, or two true and one false.” The Prophet (SAW) said, “This has become confused for him.” And he left him alone. [Bukhari 3055, Muslim 2925]
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَکْرَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْکُثُ أَبُو الدَّجَّالِ وَأُمُّهُ ثَلَاثِينَ عَامًا لَا يُولَدُ لَهُمَا وَلَدٌ ثُمَّ يُولَدُ لَهُمَا غُلَامٌ أَعْوَرُ أَضَرُّ شَيْئٍ وَأَقَلُّهُ مَنْفَعَةً تَنَامُ عَيْنَاهُ وَلَا يَنَامُ قَلْبُهُ ثُمَّ نَعَتَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَوَيْهِ فَقَالَ أَبُوهُ طِوَالٌ ضَرْبُ اللَّحْمِ کَأَنَّ أَنْفَهُ مِنْقَارٌ وَأُمُّهُ فِرْضَاخِيَّةٌ طَوِيلَةُ الْيَدَيْنِ فَقَالَ أَبُو بَکْرَةَ فَسَمِعْنَا بِمَوْلُودٍ فِي الْيَهُودِ بِالْمَدِينَةِ فَذَهَبْتُ أَنَا وَالزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ حَتَّی دَخَلْنَا عَلَی أَبَوَيْهِ فَإِذَا نَعْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِمَا فَقُلْنَا هَلْ لَکُمَا وَلَدٌ فَقَالَا مَکَثْنَا ثَلَاثِينَ عَامًا لَا يُولَدُ لَنَا وَلَدٌ ثُمَّ وُلِدَ لَنَا غُلَامٌ أَعْوَرُ أَضَرُّ شَيْئٍ وَأَقَلُّهُ مَنْفَعَةً تَنَامُ عَيْنَاهُ وَلَا يَنَامُ قَلْبُهُ قَالَ فَخَرَجْنَا مِنْ عِنْدِهِمَا فَإِذَا هُوَ مُنْجَدِلٌ فِي الشَّمْسِ فِي قَطِيفَةٍ لَهُ وَلَهُ هَمْهَمَةٌ فَتَکَشَّفَ عَنْ رَأْسِهِ فَقَالَ مَا قُلْتُمَا قُلْنَا وَهَلْ سَمِعْتَ مَا قُلْنَا قَالَ نَعَمْ تَنَامُ عَيْنَايَ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ-
عبداللہ بن معاویہ جمحی، حماد بن سلمة علی بن زید، حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دجال کے ماں باپ کے ہاں تیس سال تک اولاد نہ ہوگی اس کے بعد ایک لڑکا پیدا ہوگا اس کی آنکھیں سوئیں گی دل نہیں سوئے گا پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے والدین کا حلیہ وغیرہ بیان کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس کا باپ کافی لمبا اور دبلا پتلا ہوگا اور اس کی ناک مرغ کی چونچ کی طرح ہوگی جبکہ اس کی ماں لمبے لمبے پستان والی عورت ہوگی ابوبکرہ فرماتے ہیں کہ پھر میں نے یہودیوں کے ہاں ایک بچے کی ولادت کا سنا تو میں اور زبیر بن عوام اسے دیکھنے کے لئے گئے ہم نے اس کے ماں باپ کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان کردہ اوصاف کے مطابق پایا میں نے ان سے پوچھا کیا تمہاری اولاد ہے انہوں نے کہ ہم تیس سال تک بے اولاد رہے پھر ہمارے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جو کانا ہے اور اس میں نفع سے زیادہ ضرر ہے اس کی آنکھیں سوتی ہیں اور دل نہیں سوتا پھر ہم ان کے پاس سے نکلے تو اچانک اس لڑکے پر نظر پڑ گئی وہ ایک موٹی روئیں دار چادر میں دھوپ میں پڑا ہوا کچھ بڑ بڑا رہا تھا اتنے میں اس نے اپنے سر سے چادر اٹھائی اور پوچھا تم نے کیا کہا ہم نے کہا تو نے ہماری بات کو سنا ہے کہنے لگا ہاں سنا ہے میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا یہ حدیث حسن غریب ہے اور ہم اسے صرف سلمہ کی روایت سے جانتے ہیں
Sayyidina Abu Bakrah reported that for thirty years the dajjal’s parents will have no children. Then a child will be born to them with one eye. He will be more harmful than beneficial. His eyes will sleep, but his heart will not sleep. Allah’s Messenger then described to them the dajjals parents, saying, “His father would be tall and lean with a nose pointed like a hen’s beak. His mother will be a large woman with long arms.” Abu Bakrah said that he heard of the birth of a Jew child, so he and Zubayr ibn Awwam (RA) went to see him. They found his parents as described by Allah’s Messenger (SAW). They said, “We waited for a child for thirty years. Then, a child blind in one eye was born to us, more harmful than of benefit. His eyes sleep, but not his heart.” Then they went out from them. Their sight fell on the child lying in a thick sheet of cloth in the sun. He was murmuring something. He asked them, “What did you say?” We asked, “Did you hear us?” He said, “Yes, My eyes sleep but my heart keeps awake.” [Ahmed 20440]